دھند

سردیوں کی دھند اور رات کے اندھیرے میں لپٹی اس کے گھر کو جانے والی سنسان سڑک پر یادوں کا ہجوم تھا. گہرے سناٹوں میں قائم اس میلے میں کتنے آشناء دیکھے. وہ ابتداء کے بھیجے ہوئے پیغامات، خط اور تصاویر قہقہوں میں مصروف تھے. رات بھر ہونے والی فون کالز بھی موجود تھیں. روشنی بکھیرتے تحائف پہلے روز سے روشن تھے اور شام کی رونق کے فریب کا سبب تھے. وہ پہلی ملاقات اس رونق کی جان بنے ہجوم کے بیچ تھی. اس کے گرد قول و قرار کی بھیڑ تھی. جن سے آج بھی لوگ بے خبر ہیں وہ لمحات وصل محفل میں باحجاب تھے.  حالیہ مباحثے کو بھی ایک کونے میں پرانے اختلافات کے ساتھ پایا. ایک طرف سب تلخیاں بھی یکجا نظرآئیں. آخرمیں کھڑی جدائی کا حسن سحر انگیز تھا. میں اس چوک تک پہنچ چکا تھا جس کے قریب اس کا گھر تھا. دھند گہری ہو چکی تھی.