August 26th, 2018 / 7:26 PM
ردیف قافیہ بندش خیال لفظ گری
وہ حور زینہ اترتے ہوئے سکھانے لگی
کتاب باب غزل شعر بیت لفظ حروف
خفیف رقص سے دل پر ابھارے مست پری
کلام عروض تغزل خیال ذوق جمال
بدن کے جام نے الفاظ کی صراحی بھری
قصیدہ شعر مسدس رباعی نظم غزل
مہکتے ہونٹوں کی تفسیر ہے بھلی سے بھلی
بیان علم معانی فصاحت علم بلاغ
بیان کر نہیں سکتے کسی کی ایک ہنسی
حریر اطلس و کمخواب پنکھڑی ریشم
کسی کے پھول سے تلووں سے شاہ مات سبھی
گلاب عنبر و ریحان موتیا لوبان
کسی کی زلف معطر میں سب کی خوشبو ملی
کسی کے مرمریں آئینے میں نمایاں ہیں
گھٹا بہار دھنک چاند پھول دیپ کلی
کسی کے شیریں لبوں سے ادھار لیتے ہیں
مٹھاس شہد رطب چینی قند مصری ڈلی
کسی کے نور کو چندھیا کے دیکھیں حیرت سے
چراغ جگنو شرر آفتاب پھول جھڑی
کسی کے حسن کو بن مانگے باج دیتے ہیں
وزیر میر سپاہی فقیہ ذوق شہی
نگاہیں چار ہوئیں وقت ہوش کھو بیٹھا
صدی دہائی برس ماہ روز آج ابھی
سیاہ زلف گھٹا جال جادو جنگ جلال
فسوں شباب شکارن شراب رات گھنی
ظریف ابرو غضب غمزہ غصہ غور غزل
گھمنڈ قوس قضا عشق طنز نیم سخی
گلابی گال شفق سیب سرخی غازہ کنول
طلسم چاہ بھنور ناز شرم نرم گری
نشیلی ٹھوڑی تبسم ترازو چاہ ذقن
خمیدہ خنداں خجستہ خمار پتلی گلی
گلا صراحی نوا گیت سوز آہ اثر
ترنگ چیخ ترنم ترانہ سر کی لڑی
ہتھیلی ریشمی نازک ملائی نرم لطیف
حسین مرمریں صندل سفید دودھ دھلی
جو اس پہ بوند گری ابر کپکپا اٹھا
اس ایک لمحے میں کافی گھروں پہ بجلی گری
قیامت آ گئی خوشبو کی کلیاں چیخ پڑیں
گلاب بولا نہیں غالباً وہ زلف کھلی
کمال لیلیٰ تو دیکھو کہ صرف نام لیا
”پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی”
عطائے حسن تھی قیسؔ اک جھلک میں شوخ غزل
کتاب لکھتا میں اس پر مگر وہ پھر نہ ملی