غزل

تمہاری چاہ میں حد سے گزر گیا تو پھر؟
ہمارا دل تیری دنیا سے بھر گیا تو پھر؟

سنا ہے کچھ بھی نہیں یاد اب رہا تجھ کو
جو اپنے وعدوں سے میں بھی مکر گیا تو پھر؟

یہ ٹھیک ہے کے محبت میں لٹ چکے ہیں ہم 
مگر یہ حال ہمارا سنور گیا تو پھر؟ 

ہمارے دل پہ حکومت ہے ان دنوں تیری
جو تو بھی دل سے ہمارے اتر گیا تو پھر؟

وفا کی راہ پہ ہم تم رواں تو ہیں لیکن 
ہمارا سارا سفر بے ثمر گیا تو پھر؟

نہیں عجیب کے میں ٹوٹ کر بھی زندہ ہوں 
میری طرح سے جو تو بھی بکھر گیا تو پھر؟

وہ شخص جس سے گریزاں ہے تو بہت واثق 
تیری جدائی میں اک روز مر گیا تو پھر؟